Sunday, June 20, 2010

آخر کب آئے گا وہ دن۔۔۔۔

آخر لوگ کیا سنا چاہتے ہیں اور کیا پڑھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ بہت دنوں کی تحقیق کے بعد یہ سمجھ میں آیا کہ اکثریت۔۔۔۔۔۔ لوگ کچھ بھی نیہں سنا چاہتے اور نہ ہی پڑھنا چاہتے ہیں۔


اسکی وجہ کیا ہے یہ ہم سبکو پتہ ہے کے لکھنے والے محض اس لئے لکھ رہے ہیں کہ انکی واہ واہ ہو اور 2، 4 ایوارڈ مل جایئں اللہ، اللہ خیر۔

حلانکہ قلم کی طاقت کا اندازہ سب کو بہت اچھی طرح ہے۔

میں خدانخواستہ کسی پہ تنقید نہیں کر رہی ہوں میں تو بس یہ جانا چاہتی ہوں کہ کب ہماری تحریروں میں وہ اثر آئے گا کہ جس کو کو پڑھ کر قاری یہ نہیں کہے گا کہ ہاں بہت اچھا لکھا ہے بلکہ وہ اس لکھے ہوئے سے متاثر ہوکے عمل پیرا بھی ہوگا

آخر کب آئے گا وہ دن۔۔۔۔

Monday, May 24, 2010

حد ہو گئی

انسان جب اپنے بارے میں کچھ کہنا چاہ رہا ہو تو جو دل میں آئے بک دے۔۔۔۔ مگر جب بات کسی دوسرے کی ہو تو کم از کم جس کے بارے میں وہ بات کرنے جارہا ہے اس کے متعلق اپنی معلومات کو مکمل کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس میں بھی دو باتیں ہیں ایک سامنے والا اور دنیا کے اعتبار سے کس عہدے پہ براجمان ہے۔۔۔ اور دوسرا دین کے حساب سے کتنا متقی اور پرہیزگار ہے۔۔۔۔۔فی زمانہ کوئی بھی حکمراں ایسا نہیں کہ اس کو قرون اولی کے کسی ادنٰی سے حکمراں سے منسوب کیا جائے چہ جائیکہ آج ہمارے وطن کے کچھ لوگ مرد اول کو اس ہستی سے منسوب کرنے کی کو شش کر رہے ہیں جن کے عدل و انصاف کو آج بھی اگر اپنے معاشرے میں شامل کر لیا جائے تو مسائل ہی نہ رہیں۔۔۔۔۔۔

کل تو حد ہی ہو گئی حلانکہ ہمارے ملک میں کسی قسم کی کوئی حد نہیں ہے۔۔۔۔ حکمرانوں کے لئے ۔۔۔۔۔۔(تمام قدغنیں) عوام کے لئے بالجملہ منجانب بحق سرکار محفوظ ہیں۔۔۔۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ کل ایک انگریزی خبر رساں چینل پے حکمراں جماعت کی نمائندہ محترمہ نے عجیب بات کردی۔۔۔۔۔۔۔۔ کے ان کے لئے سب کچھ 73 کا آئین ہی ہے۔۔۔ اور چونکہ 1973 سے پہلے کوئی آئین نہیں تھا اس لئے پچھلے تمام حکمراں عدالت میں آسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

میرا سوال صرف اتنا ہے کہ۔۔۔۔ کوئی تو حد ہوگی کوئی تو ہوگا جو ان کو کہتا ہو کہ آپ نے یہ کہنا ہے۔۔۔۔ یا صرف گدھوں پہ وزارت کا قلمدان رکھ کے عوام پہ چھوڑ دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔

انکو شرم آنی چاہیے کہ ایک وہ تھے جو اپنی ذمہ داری اس حد تک سمجھتے تہے کہ اگر دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو حاکم وقت سے روز محشر حساب ہو گا۔۔۔ اور ایک یہ ہیں کہ جو شاید یہ دعا کرتے ہوں گے کہ ساری عوام کا کس طرح خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ کے اپنے اکاونٹ بھر لیں۔

Saturday, May 22, 2010

اپنی صحیح پہچان کیا ہے

کبھی 20 مئ تو کبھی کچھ اور آئے دن یہ اغیار کچھ نہ کچھ بکواس کرتے ہی رہتے ہیں تو اسکی وجہ جو مجھے سمجھ آئی ہے۔۔۔ اور وہ ہے ‘اپنی پہچان‘۔

ایک قصہ گوش گذار کردیتی ہوں جو اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ بہت عرصہ پہلے اک جنگل میں، جنگل کے بادشاہ کے گھر ولادت ہوئی، اور ولادت کے چند گھنٹوں کے بعد نومولود کی ماں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئی۔ کچھ دن تو بادشاہ سلامت نے اپنی شریکِ حیات کا ساتھ چھوڑ کے جانے کا نام نہاد سوگ منایا چونکہ رسمِ جنگل بھی یہی تھا۔ جب شب و روز کے معاملات دُوبارہ اپنے روٹین پہ آگئے تو شیر اپنی اولاد نرینہ سے یکسر غافل ہو چکے تھے۔ اسکا اثر اُس بچے پہ یہ ہوا کہ چھوٹی سی عمر میں جنگل میں آوارہ گردی شروع کردی۔

چونکہ عمر نا سمجھ تہی اس لیے بھٹک گیا اور بکریوں کے ریوڑ میں جا کے مل گیا۔ بکریوں میں معصومیت اور مسکنت چونکہ بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے اور ماحول کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ تو شیر کا بچہ بکریوں میں رہ، رہ کے بکری ہی ہوگیا تھا۔ وہی انداز چلنے کا وہی طریقہ کھانے کا غرضیکہ بلکل بکری ہو گیا۔

اسطرح کچھ برس بیت گئے اور شیر کا بچہ جوان ہو گیا مگر ماحول کے اثر کے طفیل بکریوں والی ساری خصلتیں تھی اس میں۔ کچہ عرصے بعد جناب بادشاہ سلامت کو جب ولی عہد کی یاد آئی تو وزیر لومڑی کو خبر لانے کے لیے بھیجا۔
کچھ دنوں کی محنت کے بعد لومڑی بی کو کامیابی ہوئی اور جو کچھ بھی دیکھا تھا بادشاہ سلامت کو سنا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اول تو بادشاہ کو یقین ہی نہیں آیا۔۔۔۔ تو لومڑی کیساتہ بقلم خود دیکھنے گیا۔۔۔۔۔ اور خود جب اپنی آنکھوں سے دیکھا تو اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گیا کہ سارے جنگل کواپنی صرف آواز سے سناٹے میں لانے والے کا کیا حشر ہو رہا ہے

کبھی ایک بکری اپنا سینگ مارتی تو کبھی دوسری اور شیر کہتا اگر میرے سینگ ہوتے تو میں تم لوگوں کو بھی مارتا۔ یہ صورت حال دیکھ کے بادشاہ بیت پریشان ہوا اور لومڑی سے مشورہ کیا کے کیا، کیا جائے۔۔۔۔لومڑی کے مفید مشورے پے عمل کرنے کو سوچ کے بادشاہ کچھ مطمئن ہوا۔۔۔ اور دوسرے ہی دن اس جگہ جہاں بکریاں اور جوان شیر دھینگا مشتی کر رہے تھے، سے کچھ فاصلے پہ چھپ کے موقع کا انتظار کرنے لگا اور جیسے ہی اسکو موقع ملا سیدھا جوان شیر کے پاس گیا اور اسکو اپنے ساتھ ایک سائیڈ پہ لے جا کے پوچھا کہ یہ کیا تم جنگل کے بادشاہ ہو کے بکریون سے مار کھا ریے ہو تو جوان شیر نے کہا آپ بھی مار کھاوگے کیوں کے سینگ تو آپکے پاس بھی نہیں ہیں
بادشاہ شیر کہتا ہے کہ تم کو سینگ کی ضرورت نہیں تمہارا تو زور سے بولنا ہی کافی ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوجوان شیر بادشاہ کی بات سن کر سوچتا ہے کے یہ تو عمر کیساتہ پاگل ہو گیا ہے۔۔۔۔ اور بادشاہ بھی اپنے تجربے سے سمجھ جاتا ہے کہ یہ نوجوان کیا سوچ رہا ہے۔۔۔۔۔ تو بادشاہ، اُس نوجوان کو وہاں سے لے کے بہت دور چلا جاتا ہے۔۔۔۔ وہاں جنگل کے جانوروں کا بے ہنگم شور برپا ہوتا ہے۔۔۔۔۔بادشاہ اس نوجوان سے کہتا ہے کے اب تم بھرپور انداز میں چیخ مارو۔۔۔۔۔۔

 نوجوان شیر اپنی پوری طاقت سے چنگھاڑتا ہے تو یک دم ہی جنگل میں سناٹا ہو جاتا تو نوجوان بادشاہ سے پوچھتا ہے کہ کیا اسطرح میں بکریوں سے بہی جیت سکتا ہوں تو بادشاہ کہتا ہے تم سب سے جیت سکتے ہو بشرطیکہ اپے منسب کو پہچان جاو۔۔۔۔ نوجوان شیر واپس بکریوں کے پاس جاتا ہے تو بکریاں پھر اسکو تنگ کرتی ہیں تو نوجوان شیر زور سے چنگھاڑتا ہے تو ساری بکریاں ایک دم بھاگ جاتی ہیں اور پھر ان میں سے ایک سیانی بکری کہتی ہے آج یہ اپنے آپ کو پہچان گیا ہے اسکو اب کوئی نہیں دبا سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو دوستو آج کے مسلمان کا بہی یہی حال ہے۔ آج کا مسلمان اپنے منسب و مرتبے کو بھول کے دو، چار بکریوں میں گھرا ہوا ہے۔۔۔ آج ہم مسلمان اپنے اسلاف پہ نظر ڈالیں تو ایسے ایسے لوگ نظر آئیں گے کہ جنکے خوف سے آج بھی رواں ہے دریا۔۔۔ اور جن کے نام سے آج بھی غیروں کے دل کانپتے ہیں۔۔۔۔۔۔

خالقِ کائنات نے تو مسلمان کو سر کا تاج بنایا مگر افسوس کے ہم اپنی ہی قدر کھو بیٹھے۔۔۔ جس کا انجام یہ ہوا کے جس کا دل چاہا اس نے آکے سینگ ماردیا۔۔۔۔۔ اب بہی وقت ہے ۔۔۔۔ اور اللہ اب بھی وہی ہے بس ہم کو تھوڑی سی ہمت دکھانی ہے کہ اللہ ہم اپنے آپ کو اللہ کے لئے بدلنے کو تیار ہیں۔۔۔۔اسکے بعد کون ہے جو اللہ سے ٹکر لے سکتا ہے۔۔۔۔ اور جو ٹکرائے گا اسکے ساتھ کیا ہو گا اسے تاریخ بھری پڑی ہے۔۔۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔۔۔۔

آمین۔۔