Saturday, May 22, 2010

اپنی صحیح پہچان کیا ہے

کبھی 20 مئ تو کبھی کچھ اور آئے دن یہ اغیار کچھ نہ کچھ بکواس کرتے ہی رہتے ہیں تو اسکی وجہ جو مجھے سمجھ آئی ہے۔۔۔ اور وہ ہے ‘اپنی پہچان‘۔

ایک قصہ گوش گذار کردیتی ہوں جو اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ بہت عرصہ پہلے اک جنگل میں، جنگل کے بادشاہ کے گھر ولادت ہوئی، اور ولادت کے چند گھنٹوں کے بعد نومولود کی ماں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئی۔ کچھ دن تو بادشاہ سلامت نے اپنی شریکِ حیات کا ساتھ چھوڑ کے جانے کا نام نہاد سوگ منایا چونکہ رسمِ جنگل بھی یہی تھا۔ جب شب و روز کے معاملات دُوبارہ اپنے روٹین پہ آگئے تو شیر اپنی اولاد نرینہ سے یکسر غافل ہو چکے تھے۔ اسکا اثر اُس بچے پہ یہ ہوا کہ چھوٹی سی عمر میں جنگل میں آوارہ گردی شروع کردی۔

چونکہ عمر نا سمجھ تہی اس لیے بھٹک گیا اور بکریوں کے ریوڑ میں جا کے مل گیا۔ بکریوں میں معصومیت اور مسکنت چونکہ بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے اور ماحول کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ تو شیر کا بچہ بکریوں میں رہ، رہ کے بکری ہی ہوگیا تھا۔ وہی انداز چلنے کا وہی طریقہ کھانے کا غرضیکہ بلکل بکری ہو گیا۔

اسطرح کچھ برس بیت گئے اور شیر کا بچہ جوان ہو گیا مگر ماحول کے اثر کے طفیل بکریوں والی ساری خصلتیں تھی اس میں۔ کچہ عرصے بعد جناب بادشاہ سلامت کو جب ولی عہد کی یاد آئی تو وزیر لومڑی کو خبر لانے کے لیے بھیجا۔
کچھ دنوں کی محنت کے بعد لومڑی بی کو کامیابی ہوئی اور جو کچھ بھی دیکھا تھا بادشاہ سلامت کو سنا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اول تو بادشاہ کو یقین ہی نہیں آیا۔۔۔۔ تو لومڑی کیساتہ بقلم خود دیکھنے گیا۔۔۔۔۔ اور خود جب اپنی آنکھوں سے دیکھا تو اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گیا کہ سارے جنگل کواپنی صرف آواز سے سناٹے میں لانے والے کا کیا حشر ہو رہا ہے

کبھی ایک بکری اپنا سینگ مارتی تو کبھی دوسری اور شیر کہتا اگر میرے سینگ ہوتے تو میں تم لوگوں کو بھی مارتا۔ یہ صورت حال دیکھ کے بادشاہ بیت پریشان ہوا اور لومڑی سے مشورہ کیا کے کیا، کیا جائے۔۔۔۔لومڑی کے مفید مشورے پے عمل کرنے کو سوچ کے بادشاہ کچھ مطمئن ہوا۔۔۔ اور دوسرے ہی دن اس جگہ جہاں بکریاں اور جوان شیر دھینگا مشتی کر رہے تھے، سے کچھ فاصلے پہ چھپ کے موقع کا انتظار کرنے لگا اور جیسے ہی اسکو موقع ملا سیدھا جوان شیر کے پاس گیا اور اسکو اپنے ساتھ ایک سائیڈ پہ لے جا کے پوچھا کہ یہ کیا تم جنگل کے بادشاہ ہو کے بکریون سے مار کھا ریے ہو تو جوان شیر نے کہا آپ بھی مار کھاوگے کیوں کے سینگ تو آپکے پاس بھی نہیں ہیں
بادشاہ شیر کہتا ہے کہ تم کو سینگ کی ضرورت نہیں تمہارا تو زور سے بولنا ہی کافی ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوجوان شیر بادشاہ کی بات سن کر سوچتا ہے کے یہ تو عمر کیساتہ پاگل ہو گیا ہے۔۔۔۔ اور بادشاہ بھی اپنے تجربے سے سمجھ جاتا ہے کہ یہ نوجوان کیا سوچ رہا ہے۔۔۔۔۔ تو بادشاہ، اُس نوجوان کو وہاں سے لے کے بہت دور چلا جاتا ہے۔۔۔۔ وہاں جنگل کے جانوروں کا بے ہنگم شور برپا ہوتا ہے۔۔۔۔۔بادشاہ اس نوجوان سے کہتا ہے کے اب تم بھرپور انداز میں چیخ مارو۔۔۔۔۔۔

 نوجوان شیر اپنی پوری طاقت سے چنگھاڑتا ہے تو یک دم ہی جنگل میں سناٹا ہو جاتا تو نوجوان بادشاہ سے پوچھتا ہے کہ کیا اسطرح میں بکریوں سے بہی جیت سکتا ہوں تو بادشاہ کہتا ہے تم سب سے جیت سکتے ہو بشرطیکہ اپے منسب کو پہچان جاو۔۔۔۔ نوجوان شیر واپس بکریوں کے پاس جاتا ہے تو بکریاں پھر اسکو تنگ کرتی ہیں تو نوجوان شیر زور سے چنگھاڑتا ہے تو ساری بکریاں ایک دم بھاگ جاتی ہیں اور پھر ان میں سے ایک سیانی بکری کہتی ہے آج یہ اپنے آپ کو پہچان گیا ہے اسکو اب کوئی نہیں دبا سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو دوستو آج کے مسلمان کا بہی یہی حال ہے۔ آج کا مسلمان اپنے منسب و مرتبے کو بھول کے دو، چار بکریوں میں گھرا ہوا ہے۔۔۔ آج ہم مسلمان اپنے اسلاف پہ نظر ڈالیں تو ایسے ایسے لوگ نظر آئیں گے کہ جنکے خوف سے آج بھی رواں ہے دریا۔۔۔ اور جن کے نام سے آج بھی غیروں کے دل کانپتے ہیں۔۔۔۔۔۔

خالقِ کائنات نے تو مسلمان کو سر کا تاج بنایا مگر افسوس کے ہم اپنی ہی قدر کھو بیٹھے۔۔۔ جس کا انجام یہ ہوا کے جس کا دل چاہا اس نے آکے سینگ ماردیا۔۔۔۔۔ اب بہی وقت ہے ۔۔۔۔ اور اللہ اب بھی وہی ہے بس ہم کو تھوڑی سی ہمت دکھانی ہے کہ اللہ ہم اپنے آپ کو اللہ کے لئے بدلنے کو تیار ہیں۔۔۔۔اسکے بعد کون ہے جو اللہ سے ٹکر لے سکتا ہے۔۔۔۔ اور جو ٹکرائے گا اسکے ساتھ کیا ہو گا اسے تاریخ بھری پڑی ہے۔۔۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔۔۔۔

آمین۔۔

5 comments:

DuFFeR ڈفرستان ۔ said...

میں نے سنا کہ نواں بلاگ شروع ہوا ہے تو سوچا ذرا مبارکباد ہی دیتا آؤں
مبارک ہو جی نئے بلاگ کی
اور بلاگنگ کی دنیا میں خوش آمدید بھی
اور جی میرا خیال ہے
آ پکی اس پوسٹ سے سیاسی تعصب ٹپکتا ہے
;)

DuFFeR ڈفرستان ۔ said...

name/url ka option bhi enable ho jaye to ain nawazish ho g

Kainat Hassan said...

بہت بہت شکریہ، اصل میں پہلی بار کچھ لکھا ھے میرا مطلب اپنے خیالات کو کاغز پے منتقل کیا ھے۔۔۔۔ تعصب کہاں دیکھا آپ نے؟؟ اور یو آر ایل کے لئے اور دیگر کے لیے بندہ ھائر کیا ھے مگر آج کل اسکے امتحان ھو رھے ھیں۔۔۔۔۔ انشاءاللہ بہت جلد تمام چیزوں کو درست کر لیا جائے گا،

DuFFeR - ڈفر said...

صرف "شیر" کا ذکر تعصب ہی تو ہے
کہیں تیر کمان والے شکاری اور بسنت میلے کا ذکر ہی نہیں

UncleTom said...

نہیں جی مسلمان تو کہیں نہیں گھرا ہوا ، حکمران گھرے ہوے ہیں اور حکمرانوں کو شیر کون کہتے ہیں ، آخری دفعہ سنا تھا تو لوگ کتا اور سور کہتے تھے ۔

Post a Comment

اپنی آراء کا اظہار کرتے وقت شائستگی کو ملحوظِ خاطر رکھیے